ہو سکے تو لوٹ آؤ
وحشت کے اس پار بھی ایک دنیا ہے
جہاں غم کے بادل گرجتے برستے ہیں
ستارے اپنی روشنی دیتے ہیں
وہاں ایک مزار نما گھر ہے، میرا گھر
جہاں اداسی میری زوجیت میں رہتی ہے
ثانی بن ہجر دروازے پہ لکھا ہے
اک دِیا ہے جو کسی کی یاد میں مسلسل جل رہا ہے
تاریکیوں میں روشنی بکھیرنے کی کوشش کر رہا ہے
وہ محبت کا دِیا ہے
جانتی ہو اے جان ثانی! جب تم آؤ گی زمین اپنا مدار بدلے گی
اور وحشت کے اس پار ایک نئی دنیا آباد ہو گی
جو اس پرانی دنیا کو بدل کے رکھ دے گی
میری اور تمہاری دنیا جہاں کوئی تیسرا نہ ہو گا
ناسا٭ کے ٹیلی سکوپ میں فقط دو چہرے نظر آئیں گے
تمہارا اور میرا چہرہ
میری دنیا منتظر ہے تمہاری آمد کی
زمین اپنا مدار بدلنا چاہتی ہے
محبت اپنی تکمیل چاہتی ہے
یعنی تمہاری موجودگی چاہتی ہے
ہو سکے تو لوٹ آؤ
ثانی حیدر
NASA٭
No comments:
Post a Comment