یہ آخر ماجرا کیا ہے
میں گِرہیں کھولتا ہوں
راستے ہموار کرتا ہوں
اور اپنی اس ریاضت میں
میں اپنی کوششوں سے مطمئن بھی ہوں
مِری یہ انگلیاں ہر ایک گِرہ سے شناسا ہیں
مگر یہ انگلیاں جب تھکنے لگتی ہیں
تو کچھ آرام کرتی ہیں
انہیں آرام کے لمحوں میں
کوئی ہے
جو چپکے سے چلا آتا ہے
گِرہیں ڈال جاتا ہے
یہ کیسا کھیل ہے؟
وہ کون ہے؟
جو راستے ہموار کرنے کی
ہر اک کوشش پہ پانی پھیر دیتا ہے
یہ آخر ماجرا کیا ہے؟
یوسف خالد
No comments:
Post a Comment