Monday 23 November 2020

لفظ پیچھا کرتے ہیں

 لفظ پیچھا کرتے ہیں


جیسے ناگ کی آنکھ کے شیشے میں

مارنے والے کا عکس رہ جاتا ہے

جیسے طوائف کے بدن پہ

گزری رات کا نقش رہ جاتا ہے

ساگر کی تہہ میں

لاوے کا منجمد رقص رہ جاتا ہے


بے خیالی میں سنے جملوں

بے خیالی میں کہے لفظوں

سے نئے کانٹے آگ آتے ہیں

سرکنڈوں سے زہر کے روئیں اڑتے ہیں

لفظوں کی راکھ سے معنی کے دھوئیں اڑتے ہیں

آنکھ میں چبھن، دل میں جلن، سانس میں گھٹن

خاموشی نئے معنی پہناتی ہے

تنہائی پرانے معنی دہراتی ہے

خاموشی کے آسیب سے

معنی کے فریب سے

بھاگتا ہوں

ڈرے ہوئے بچے کی طرح

خواب سے جاگتا ہوں

خیال میں

عقبی آوازیں گونجتی ہیں

بھولی آواز ین

خواب کے در کھولتی ہیں

وادئ حیات سے تیز تیز گزرتا ہوں

پیچھے مڑ کے نہیں دیکھتا

کہیں پتھر نہ ہو جاؤں

لفظ پیچھا کرتے ہیں


اجمل صدیقی

No comments:

Post a Comment