لفظ پیچھا کرتے ہیں
جیسے ناگ کی آنکھ کے شیشے میں
مارنے والے کا عکس رہ جاتا ہے
جیسے طوائف کے بدن پہ
گزری رات کا نقش رہ جاتا ہے
ساگر کی تہہ میں
لاوے کا منجمد رقص رہ جاتا ہے
بے خیالی میں سنے جملوں
بے خیالی میں کہے لفظوں
سے نئے کانٹے آگ آتے ہیں
سرکنڈوں سے زہر کے روئیں اڑتے ہیں
لفظوں کی راکھ سے معنی کے دھوئیں اڑتے ہیں
آنکھ میں چبھن، دل میں جلن، سانس میں گھٹن
خاموشی نئے معنی پہناتی ہے
تنہائی پرانے معنی دہراتی ہے
خاموشی کے آسیب سے
معنی کے فریب سے
بھاگتا ہوں
ڈرے ہوئے بچے کی طرح
خواب سے جاگتا ہوں
خیال میں
عقبی آوازیں گونجتی ہیں
بھولی آواز ین
خواب کے در کھولتی ہیں
وادئ حیات سے تیز تیز گزرتا ہوں
پیچھے مڑ کے نہیں دیکھتا
کہیں پتھر نہ ہو جاؤں
لفظ پیچھا کرتے ہیں
اجمل صدیقی
No comments:
Post a Comment