بہت وہ ہنستا ہے شخص لیکن مرا ہوا ہے
کسی محبت کی بھینٹ شاید چڑھا ہوا ہے
وہ اک شجر جو محبتوں سے ہرا ہوا ہے
خزاں کے لشکر سے مدتوں وہ لڑا ہوا ہے
کبھی جو پلٹو وفا کے رستوں پہ دیکھ لینا
کوئی جوانی میں لاٹھیوں پر کھڑا ہوا ہے
اسی کے جلنے سے بخت سورج کا ڈوبناہے
کوئی دیا🪔 جو سیاہ رُت سے لڑا ہوا ہے
ہماری گردن خمیدہ ہے تو وجہ ہے کوئی
کسی کے وعدوں کا طوق جیسے پڑا ہوا ہے
میں اب محبت ہی اس نگر میں بانٹتا ہوں
یوں نفرتوں کا علاج میں نے گھڑا ہوا ہے
مرے ذہن میں جو نقش تیرے ہیں مٹ رہے ہیں
یہ دل ہے تنہا جو تیرے حق میں کھڑا ہوا ہے
سبھی لکیریں میں اپنے ہاتھوں مٹا رہا ہوں
مری ہتھیلی پہ ہجر تیرا دھرا ہوا ہے
محبتوں کی وہ لوریوں سے ہے چونک اٹھتا
انائی لہجوں میں عشق میرا بڑا ہوا ہے
یوں میں تو سورج کی سرزمیں پر نکل گیا ہوں
بس ایک چھاؤں پہ دل ملک کا اڑا ہوا ہے
عثمان ملک
No comments:
Post a Comment