وحشت غم میں اچانک ترے آنے کا خیال
جیسے نادار کو گم گشتہ خزانے کا خیال
اس محبت میں ہدف کوئی بھی بن سکتا ہے
اس میں رکھا نہیں جاتا ہے نشانے کاخیال
وہ کبوتر تو اسی دن سے مرے جال میں ہے
جب اسے پہلے پہل آیا تھا دانے کا خیال
میں کناروں کو کبھی دھیان میں لاتا ہی نہیں
لطف دیتا ہے مجھے ڈوبتے جانے کا خیال
مرنے دیتا نہیں میں بادیہ گردی کا رواج
میں نئےعشق میں لاتا ہوں پرانے کا خیال
اے خدا! میرے مقدر میں وہ سجدہ لکھ دے
جس میں آئے نہ مجھے سر کو اٹھانے کا خیال
نثار محمود تاثیر
No comments:
Post a Comment