Thursday 26 November 2020

تیری تخلیق ترا رنگ حوالہ تھا مرا

 تیری تخلیق، ترا رنگ حوالہ تھا مرا

کون کہتا ہے کہ انداز نرالا تھا مرا

میں جہاں پر تھا وہیں تُو تھا مرے آئینہ گر

تیری تصویروں سے بھرپور رسالہ تھا مرا

چاہتا تھا میں دعا مانگتا، پر کیا کرتا

میرے ہاتھوں میں تو لبریز پیالہ تھا مرا

مجھے پہلے کئی صدیوں کی سزا کاٹنا تھی

منزلِ صبح سے کچھ دور اجالا تھا مرا

میں اسے بھول گیا تا کہ اسے یاد نہ آؤں

کتنا محبوب مجھے بھولنے والا تھا مرا

ہوں تہی دست، مگر منتِ کشکول نہیں

مہرِ تسکین مجھے ہاتھ کا چھالا تھا مرا

زہر پیتے ہوئے خاموش ہی رہنا تھا مجھے

شاخِ تسلیم سے گل پوش پیالہ تھا مرا

دوسری زندگی دینے کی ضرورت ہی نہ تھی

ہر نئی شکل کی صورت میں ازالہ تھا مرا

یہ جو دنیا میں سرِ موجِ ہوا لکھا ہے

میرے یاروں نے کبھی نام اچھالا تھا مرا


شاہنواز حسن

No comments:

Post a Comment