Thursday 26 November 2020

تعصب کی فضا میں طعنہ کردار کیا دیتا

تعصب کی فضا میں طعنۂ کردار کیا دیتا

منافق دوستوں کے ہاتھ میں تلوار کیا دیتا

امیر شہر تو خود زرد رو تھا ایک مدت سے

جھروکے سے وہ اہل شہر کو دیدار کیا دیتا

ہمارے دن کو جو دیتا نہیں اک دھوپ کا ٹکڑا

ہماری رات کو وہ چاند کا معیار کیا دیتا

کہیں گولی کہیں گالی محبت سے ہے دل خالی

خبر یہ تھی، تو بچوں کو نیا اخبار کیا دیتا

بہت دشوار ہے خوددار رہ کر زندگی کرنا

خوشامد کرنے والا صدقۂ دستار کیا دیتا

خود اس کا سایہ بھی اس سے گریزاں ہے مصیبت میں

مرا ہمسایہ مجھ کو سایۂ دیوار کیا دیتا

سرائے جاں میں دانستہ مسافر لٹ گیا، ورنہ

کہ دل سا سخت جاں اک گلبدن کو وار کیا دیتا


عنوان چشتی

No comments:

Post a Comment