تنہائی سے صحرا سے نہ دریا کے بھنور سے
وحشت مجھے ہوتی ہے مرے اپنے ہی گھر سے
چُننا ہے مجھے دل بھی ابھی قریہ بہ قریہ
آنکھیں بھی اٹھانی ہیں تری راہگزر سے
اک نظر کرم کے لیے کون عمر گزارے
اک بوسۂ لب کے لیے کب تک کوئی ترسے
مت اپنی کریمی کے سنائے مجھے قصے
وہ ابر کرم ہے تو مرے دشت پہ برسے
جس شخص پہ احسان ابھی میں نے کیا ہے
محفوظ خدا رکھے اسی شخص کے شر سے
کٹنے نہ دیا صحن سے اس واسطے تاثیر
خوشبوئے وفا آتی ہے اس بوڑھے شجر سے
تاثیر جعفری
No comments:
Post a Comment