Thursday 26 November 2020

تنہائی سے صحرا سے نہ دریا کے بھنور سے

 تنہائی سے صحرا سے نہ دریا کے بھنور سے

وحشت مجھے ہوتی ہے مرے اپنے ہی گھر سے

چُننا ہے مجھے دل بھی ابھی قریہ بہ قریہ

آنکھیں بھی اٹھانی ہیں تری راہگزر سے

اک نظر کرم کے لیے کون عمر گزارے

اک بوسۂ لب کے لیے کب تک کوئی ترسے

مت اپنی کریمی کے سنائے مجھے قصے

وہ ابر کرم ہے تو مرے دشت پہ برسے

جس شخص پہ احسان ابھی میں نے کیا ہے

محفوظ خدا رکھے اسی شخص کے شر سے

کٹنے نہ دیا صحن سے اس واسطے تاثیر

خوشبوئے وفا آتی ہے اس بوڑھے شجر سے


تاثیر جعفری

No comments:

Post a Comment