کیسے سوتے کہ ہمیں یار نے سونے نہ دیا
زلفِ خمدار کی مہکار نے سونے نہ دیا
وہ بھی دھڑکن کی صداؤں سے ہی الجھے رہے
ہم کو بھی سانسوں کی رفتار نے سونے نہ دیا
کرتے اظہار تو شاید یہ نہ نوبت آتی
رات بھر کوششِ اظہار نے سونے نہ دیا
دو بلاؤں نے دیا نیند پہ پہرہ شب بھر
مجھے چپ نے انہیں گفتار نے سونے نہ دیا
چین دن کا تیری یاد نے چھینا مجھ سے
رات کو اس دلِ بیمار نے سونے نہ دیا
کھوجتے رہ گئے پائل کی صدا کان میرے
جو نہ آئی، اسی جھنکار نے سونے نہ دیا
دل میں بھونچال سا یادوں نے مچائے رکھا
ایک گرتی ہوئی دیوار نے سونے نہ دیا
رات بھر ان کی نہیں گونجتی کانوں میں رہی
ان کے انکار کی تکرار نے سونے نہ دیا
کوئی رویا، کوئی سلگا، کوئی تڑپا، مچلا
سب کو مقصود کے اشعار نے سونے نہ دیا
مقصود شاہ
No comments:
Post a Comment