ایک قصہ جو عام عشق کا ہے
اس کا سارا کلام عشق کا ہے
چاہتا ہے کرے مسیحائی
کیونکہ وہ تو غلام عشق کا ہے
اس کے جذبوں کی تازگی دیکھو
سب کو اس کا سلام عشق کا ہے
بجلیاں سی جو دشمنوں پہ گریں
یہ جو شعلہ ہے کام عشق کا ہے
اک ہجوم اور وہ ہے نغمہ سرا
سارا یہ انتظام عشق کا ہے
زندہ رہنا ہے سر اٹھا کے اگر
یہ طریقہ تمام عشق کا ہے
ہر طرف اس کے نام کے چرچے
ذکر یوں صبح و شام عشق کا ہے
صبیحہ صبا
No comments:
Post a Comment