Tuesday, 1 March 2022

رئیس ہم جو سوئے کوچۂ حبیب چلے

 رئیس ہم جو سوئے کوچۂ حبیب چلے

ہمارے ساتھ ہزاروں بلا نصیب چلے

رفاقتوں کی سعادت لیے رفیق آئے

رقابتوں کی نحوست لیے رقیب چلے

جو قافلے کہ ہماری طلب میں نکلے تھے

کبھی بعید سے گزرے کبھی قریب چلے

عقب میں حادثۂ صبح و شام کے عفریت

جلو میں گردشِ ایام کے نقیب چلے

جہاں کو جن کے نصیبے پہ رشک آتا تھا

نکل کے اپنے گھروں سے وہ بد نصیب چلے

یہ چل چلاؤ عجیب و غریب تھا اے دوست

غریب لوگ سُوئے عالمِ عجیب چلے


رئیس امروہوی

No comments:

Post a Comment