رئیس ہم جو سوئے کوچۂ حبیب چلے
ہمارے ساتھ ہزاروں بلا نصیب چلے
رفاقتوں کی سعادت لیے رفیق آئے
رقابتوں کی نحوست لیے رقیب چلے
جو قافلے کہ ہماری طلب میں نکلے تھے
کبھی بعید سے گزرے کبھی قریب چلے
عقب میں حادثۂ صبح و شام کے عفریت
جلو میں گردشِ ایام کے نقیب چلے
جہاں کو جن کے نصیبے پہ رشک آتا تھا
نکل کے اپنے گھروں سے وہ بد نصیب چلے
یہ چل چلاؤ عجیب و غریب تھا اے دوست
غریب لوگ سُوئے عالمِ عجیب چلے
رئیس امروہوی
No comments:
Post a Comment