میں نے چاہا تھا مِرے بارے میں بس تُو بولے
کیوں تِرے بدلے تِری آنکھ سے آنسو بولے
اک غزل ایسی تو ہو نام سے منسوب مِرے
جس سے اٹھتی ہوئی احساس کی خوشبو بولے
رات تنہائی نے میری دیا ہونے کو ثبوت
جب مجھے پیرِ مغاں شوخی سے جگنو بولے
میں نے ترتیب سے رکھے تھے نجانے کیسی
لفظ بے جان تھے ان لفظوں سے باہو بولے
خامشی آنے ہی والی تھی مریدی میں، مگر
جو نہ بولے تھے کبھی مجھ سے وہ آہو بولے
بولنے والے تو چپ تھے سرِ محشر، لیکن
کیسی گزری مِری رخسار یہ گیسو بولے
جب مِرے نام سے بچھ جائے کہیں فرشِ عزا
میری خواہش ہے کہ کوئل کوئی کُو کُو بولے
جب فرشتے رکھیں اعمال مِرے پلڑوں میں
کاش اس وقت مِرے حق میں ترازو بولے
جن کی تعمیر میں شامل تھی جوانی میری
حرف علت مجھے بیٹے مِرے بازو بولے
اے مِری موجِ نسیمی! تُو دکھا دے اب تو
ایسا جادو کوئی سر چڑھ کے جو جادو بولے
نسیم شیخ
No comments:
Post a Comment