جنم جلی
پہلی بار جلی تھی جب
ماں کی کوکھ میں سانس لیا تھا
وہ بھی تو جنموں جلی تھی
پہچان گئی تھی کہ میرے جیسی اک اور
کوکھ میں پنجے گاڑ چکی ہے
تب دکھ صحرا میں کھوئی تھی ماں
چھپ چھپ کر بہت روئی تھی ماں
راتیں کاٹتی أنکھوں میں
پھر سکھ کی نیند نہ سوئی تھی ماں
دوسری بار جلی تھی تب
جب دکھ نگری میں جنم لیا تھا
باپ نے سر کو جھکا لیا تھا
ماں نے اس نا کردہ جرم میں
منہ اپنا چھپا لیا تھا
دادی کی آنکھیں نم تھیں اس دن
روشنیاں گھر میں کم تھیں اس دن
گھر کے غیرت مند مردوں کی
اونچی گردنیں خم تھیں اس دن
تیسری بار جلی تھی تب
جب بھائی کے ہاتھ میں دیکھی تھی تختی
پڑھنے کا نام لیا تھا جب
تب بابا کی آنکھوں میں دیکھی تھی سختی
قسمت میں اندھیرے جہل کے تھے
ماتھے پہ لکھی تھی بد بختی
اک اور بار جلی تھی تب
جب آنکھوں کے حوالے خواب ہوئے تھے
کانٹوں بھرے اس جیون کے
دو چار پل گلاب ہوئے تھے
انہی خوابوں کو
انہی گلابوں کو
رواجوں کی سولی پہ جب چڑھایا گیا تو
وہی پل عمر بھر کے لیے
عذاب در عذاب ہوئے تھے
تب بھی بہت جلی تھی جب
گھونگھٹ اٹھا کر یہ نہ بولا تھا؛
میری ساتھی
میری ہمسفر
میری محبت ہو تم
یہ بھی سننے کو ترسی تھیں سماعتیں
کہ میری خوشی میری چاہت ہو تم
کہا تو یہ کہ؛ میری عزت میری غیرت ہو
اوقات میں اپنی رہنا کہ
اک ذرا سی عورت ہو تم
تب تو بہت جلی تھی جب
خود کو یہ سمجھایا تھا
میرے جیون ساتھی کو
کم بولنے کی عادت ہے
میں جو ذرا سی عورت ہوں
میں اس کی عزت غیرت ہوں
بس کہتے ہوئے جھجھکتا ہے
کہ میں ہی اس کی محبت ہوں
تب تو خوب جلی تھی جب
پکڑ کر ہاتھ اک عورت کا
دل کے بھید وہ کھول رہا تھا؛
مجھے تم سے بہت محبت ہے
وہ کم کم بولنے والا جب
کئی کئی بار یہ بول رہا تھا
میں تو تھی جنم جلی
میری خاک کو خاک میں رول رہا تها
وہ وقت ہی اچھا تھا مولا
ہم جنموں جلیاں جب
زندہ گاڑ دی جاتی تھیں
ہر پل نہیں پڑتا تھا مرنا
اک بار ہی مار دی جاتی تھیں
نگین خالد
No comments:
Post a Comment