Wednesday, 2 March 2022

جنم جلی پہلی بار جلی تھی جب

 جنم جلی


پہلی بار جلی تھی جب

ماں کی کوکھ میں سانس لیا تھا

وہ بھی تو جنموں جلی تھی

پہچان گئی تھی کہ میرے جیسی اک اور 

کوکھ میں پنجے گاڑ چکی ہے

تب دکھ صحرا میں کھوئی تھی ماں

چھپ چھپ کر بہت روئی تھی ماں

راتیں کاٹتی أنکھوں میں

پھر سکھ کی نیند نہ سوئی تھی ماں

دوسری بار جلی تھی تب

جب دکھ نگری میں جنم لیا تھا

باپ نے سر کو جھکا لیا تھا

ماں نے اس نا کردہ جرم میں

منہ اپنا چھپا لیا تھا

دادی کی آنکھیں نم تھیں اس دن

روشنیاں گھر میں کم تھیں اس دن

گھر کے غیرت مند مردوں کی

اونچی گردنیں خم تھیں اس دن

تیسری بار جلی تھی تب

جب بھائی کے ہاتھ میں دیکھی تھی تختی

پڑھنے کا نام لیا تھا جب

تب بابا کی آنکھوں میں دیکھی تھی سختی

قسمت میں اندھیرے جہل کے تھے

ماتھے پہ لکھی تھی بد بختی

اک اور بار جلی تھی تب

جب آنکھوں کے حوالے خواب ہوئے تھے

کانٹوں بھرے اس جیون کے

دو چار پل گلاب ہوئے تھے

انہی خوابوں کو

انہی گلابوں کو

رواجوں کی سولی پہ جب چڑھایا گیا تو

وہی پل عمر بھر کے لیے

عذاب در عذاب ہوئے تھے

تب بھی بہت جلی تھی جب

گھونگھٹ اٹھا کر یہ نہ بولا تھا؛

میری ساتھی

میری ہمسفر

میری محبت ہو تم

یہ بھی سننے کو ترسی تھیں سماعتیں

کہ میری خوشی میری چاہت ہو تم

کہا تو یہ کہ؛ میری عزت میری غیرت ہو

اوقات میں اپنی رہنا کہ

اک ذرا سی عورت ہو تم

تب تو بہت جلی تھی جب

خود کو یہ سمجھایا تھا

میرے جیون ساتھی کو

کم بولنے کی عادت ہے

میں جو ذرا سی عورت ہوں

میں اس کی عزت غیرت ہوں

بس کہتے ہوئے جھجھکتا ہے

کہ میں ہی اس کی محبت ہوں

تب تو خوب جلی تھی جب

پکڑ کر ہاتھ اک عورت کا

دل کے بھید وہ کھول رہا تھا؛

مجھے تم سے بہت محبت ہے

وہ کم کم بولنے والا جب 

کئی کئی بار یہ بول رہا تھا

میں تو تھی جنم جلی

میری خاک کو خاک میں رول رہا تها

وہ وقت ہی اچھا تھا مولا

ہم جنموں جلیاں جب

زندہ گاڑ دی جاتی تھیں

ہر پل نہیں پڑتا تھا مرنا

اک بار ہی مار دی جاتی تھیں


نگین خالد

No comments:

Post a Comment