Tuesday, 1 March 2022

تھے جس دیار کے یہ وہ نگر نہیں ہے کیا

تھے جس دیار کے یہ وہ نگر نہیں ہے کیا

ہمارا اب اسی بستی میں میں گھر نہیں ہے کیا

بجا دراز ہے یہ عمر نفرتوں کے لیے

محبتوں کے لیے مختصر نہیں ہے کیا

لگا رہا ہے اب الزامِ کج روی مجھ پر

شریکِ جرم مِرا ہمسفر نہیں ہے کیا

مکاں تو چھوڑ گیا ہے مکینِ خانۂ دل

اب اس گلی سے بھی اس کا گزر نہیں ہے کیا

عجیب شخص ہے سڑکوں پہ روز شام ڈھلے

تھکن کو اوڑھ کے پھرتا ہے، گھر نہیں ہے کیا

یہ دردِ ہجر ہے پرویں! متاعِ تنہائیے کیا

اسے نہ چھین لے دنیا، یہ ڈر نہیں ہے کیا


پروین حیدر

No comments:

Post a Comment