تھے جس دیار کے یہ وہ نگر نہیں ہے کیا
ہمارا اب اسی بستی میں میں گھر نہیں ہے کیا
بجا دراز ہے یہ عمر نفرتوں کے لیے
محبتوں کے لیے مختصر نہیں ہے کیا
لگا رہا ہے اب الزامِ کج روی مجھ پر
شریکِ جرم مِرا ہمسفر نہیں ہے کیا
مکاں تو چھوڑ گیا ہے مکینِ خانۂ دل
اب اس گلی سے بھی اس کا گزر نہیں ہے کیا
عجیب شخص ہے سڑکوں پہ روز شام ڈھلے
تھکن کو اوڑھ کے پھرتا ہے، گھر نہیں ہے کیا
یہ دردِ ہجر ہے پرویں! متاعِ تنہائیے کیا
اسے نہ چھین لے دنیا، یہ ڈر نہیں ہے کیا
پروین حیدر
No comments:
Post a Comment