ہیں تِرے ہجر میں بوجھل در و دیوار الگ
خوں رلاتا ہے ہمیں یہ دلِ بیمار الگ
جس سے ہوتا ہے اگر یار سے اک یار الگ
ایسے دستور سے ہو جاتے ہیں اس بار الگ
تم جو دیتے ہو مجھے دکھ وہ زیادہ تو نہیں
مجھ پہ کچھ اور کرم کرتے ہیں اغیار الگ
ہجر میں سب ہی رلاتے ہیں مجھے اپنے تئیں
ماں الگ باپ الگ بھائی الگ یار الگ
باغ میں پھول کو چھوتا ہوں تو مالی روکے
اس پہ تیور بھی دکھاتا ہے مجھے خار الگ
مرے دشمن نے تو موقع ہی گنوایا نہ کبھی
اور یاروں کے بھی ہو جاتے رہے وار الگ
دل بھی کرتا ہے ملامت میں اگر جھوٹ کہوں
اور سچ بات پہ کر تے ہیں وہ تکرار الگ
دوریاں اور بھی لے آئی ہیں نزدیک ہمیں
جب بھی سوچا ہے کہ ہو جاتے ہیں اس بار الگ
میں تری سوچ سے بڑھ کر بھی تو ہو سکتا ہوں
تو نے کیا سوچ کے رکھا مرا معیار الگ
شہر والوں کی عداوت بھی نہ بھولی تھی ہمیں
ذہن میں بیٹھ گیا ہے ترا انکار الگ
اس طرح بانٹ دیا اپنے نصیبوں نے ہمیں
جس طرح صحن کو کر دیتی ہے دیوار الگ
روز خوابوں میں مرا گاؤں بلاتا ہے مجھے
پھر صدائیں بھی مجھے دیتے ہیں کہسار الگ
ایک ہی بات ہے پھر بات ہو ناموس کی جب
سر الگ تن سے ہو یا سر سے ہو دستار الگ
جس طرح تو نے دھکیلا ہے جدائی میں مجھے
تجھ سے ہو جائے کسی روز ترا پیار الگ
جب بھی ہنستے ہو نظر آتے ہیں چہرے پہ حسین
دکھ کے آثار الگ درد کے انبار الگ
نادر لکھنوی
کلب حسین نادر
No comments:
Post a Comment