Tuesday, 1 March 2022

بن گئے بازار کی زینت ثمر جتنے بھی تھے

 بن گئے بازار کی زینت ثمر جتنے بھی تھے

رفتہ رفتہ ہو گئے ویراں شجر جتنے بھی تھے

وقت کے فنکار ہاتھوں کی اداکاری بھی دیکھ

گدڑیوں سے چھین ڈالے ہیں گہر جتنے بھی تھے

میری غرقابی کے حق میں دست برداری ہوئی

جمع دریا کی عدالت میں بھنور جتنے بھی تھے

ڈھونڈ کر ہر ایک خود سر دار پر لایا گیا

ٹانک ڈالے دار پر شوریدہ سر جتنے بھی تھے

رفتہ رفتہ ہو گئے قسمت کی آندھی کا شکار

میرے ہاتھوں میں لکیروں کے شجر جتنے بھی تھے

دور تک قزاق لہروں کے پڑے ڈاکے بہت

بچ گئے سیلاب سے ساحل پہ گھر جتنے بھی تھے

پیڑ کی چھاؤں میں آ کر سو گئے ہیں سب کے سب

دھوپ کے صحرا میں میرے ہمسفر جتنے بھی تھے

چھپ گئے صابر کئی بے چہرگی کے خوف سے

چن دئیے دیوار میں خوددار سر جتنے بھی تھے


صابر جاذب

No comments:

Post a Comment