بن گئے بازار کی زینت ثمر جتنے بھی تھے
رفتہ رفتہ ہو گئے ویراں شجر جتنے بھی تھے
وقت کے فنکار ہاتھوں کی اداکاری بھی دیکھ
گدڑیوں سے چھین ڈالے ہیں گہر جتنے بھی تھے
میری غرقابی کے حق میں دست برداری ہوئی
جمع دریا کی عدالت میں بھنور جتنے بھی تھے
ڈھونڈ کر ہر ایک خود سر دار پر لایا گیا
ٹانک ڈالے دار پر شوریدہ سر جتنے بھی تھے
رفتہ رفتہ ہو گئے قسمت کی آندھی کا شکار
میرے ہاتھوں میں لکیروں کے شجر جتنے بھی تھے
دور تک قزاق لہروں کے پڑے ڈاکے بہت
بچ گئے سیلاب سے ساحل پہ گھر جتنے بھی تھے
پیڑ کی چھاؤں میں آ کر سو گئے ہیں سب کے سب
دھوپ کے صحرا میں میرے ہمسفر جتنے بھی تھے
چھپ گئے صابر کئی بے چہرگی کے خوف سے
چن دئیے دیوار میں خوددار سر جتنے بھی تھے
صابر جاذب
No comments:
Post a Comment