Tuesday, 1 March 2022

پلکوں پہ کوئی خواب سجایا نہیں گیا

پلکوں پہ کوئی خواب سجایا نہیں گیا

وہ شخص ساری عمر بھُلایا نہیں گیا

اس نے بھی میری بات نہ مانی کبھی کوئی

مجھ سے بھی اس کا ناز اُٹھایا نہیں گیا

اپنی انا کا بوجھ میں ڈھوتا رہا، مگر

سر اس کے سنگِ در پہ جھُکایا نہیں گیا

بے چہرگی ہی اب مِری پہچان بن گئی

چہرے پہ کوئی چہرہ لگایا نہیں گیا

بدنام ہو نہ جائے کہیں دوستی تِری

پلکوں سے اپنی اشک گِرایا نہیں گیا

بیتاب! اس کے حال پہ افسوس کیجیے

جس سے خود اپنا درد چھُپایا نہیں گیا


محمد حفیظ بیتاب

No comments:

Post a Comment