اسے بے رنگ ہوئے سر و سمن بانہوں میں
جیسے پڑتی ہی نہیں کوئی کرن باغوں میں
خانہ جنگی ہے الگ جسم کے دربانوں میں
روح اپنی ہے قفس میں تو بدن باغوں میں
بارشوں میں بھی کوئی تازگی دیکھی نہ گئی
چھوڑ آیا ہے کوئی اپنی تھکن باغوں میں
سلسلے خاروں سے پھولوں نے کیۓ ہیں قائم
آنے والا ہے کوئی غنچہ دہن باغوں میں
وہ نہیں ساتھ عجب رنگ ہے محرومی کا
جیسے آ رہے ہوں میری ہار کے بن باغوں میں
درد ایسا ہے کہ ہم ہجر کے ماروں کے لیے
شاخ گل ہوتی گئی دار و رسن باغوں میں
میرے اندر کسی وحشت کو جگاتا ہے سمن
زرد پتوں سے ہواؤں کا سخن باغوں میں
رخسانہ سمن
No comments:
Post a Comment