ضد
مجھے چھوڑ کر وہ چلا تو میں کہا کہ سن
وہ نشانیاں میرے پیار کی
مِری روح کی وہ امانتیں مجھے دے کے جا
مِرے ساتھ بیتے ہوئے وہ دن
وہ جو خواب تیرے ہی نام تھے، مجھے دے کے جا
میں بضد ہوا تو وہ کہہ اٹھا؛
کہ یہ سب تو میرے ہی نام تھے، تجھے کیسے دوں
مِری صبح تھے، مِرے شام تھے، تجھے کیسے دوں
یہی ایک بات
میرے پیار میں جو نہ کہہ سکا
میری ضد میں آ کے وہ کہہ گیا
سلیم کاوش
No comments:
Post a Comment