Tuesday, 1 March 2022

مجھے وہ نظر سے گرانے لگے ہیں

 مجھے وہ نظر سے گرانے لگے ہیں

ادھر سے اُدھر سے سنانے لگے ہیں

وہ دل میں ہمیں اب بسانے لگے ہیں

"نظر سے نظر کو ملانے لگے ہیں“

کرو تم وفا یا جـفا تم کرو اب

سبھی ناز ہم تو اٹھانے لگے ہیں

رہی کچھ بھی طاقت نہ چلنے کی مجھ میں

سفر میں وہ تنہا ہی جانے لگے ہیں

نبھانے کا وعـدہ کیا تھا انہوں نے

مگر چھوڑ کر وہ تو جانے لگے ہیں

مجھے اپنے جیسا بنانے کی خاطر

وہ دلّی کی چائے پلانے لگے ہیں

وہ کہتے ہیں ہم سے عداوت ہے ان کو

چلو اک تو رِشتہ بنانے لگے ہیں

بدلنے لگے ہیں ندیم ان کے تیور

وہ دُشمن سے قربت بڑھانے لگے ہیں


احمد ندیم جونیجو

No comments:

Post a Comment