آئینوں سے دھول مٹانے آتے ہیں
کچھ موسم تو آگ لگانے آتے ہیں
نیند تو گویا ان آنکھوں کی دشمن ہے
مجھ کو پھر بھی خواب سہانے آتے ہیں
ان آنکھوں میں رنگ تمہارے کھلتے ہیں
یہ موسم کب پھول کھلانے آتے ہیں
رونا ہنسنا، ہنسنا رونا عادت ہے
ہم کو بھی کچھ درد چھپانے آتے ہیں
شبنم شبنم خواب اترتے ہیں مجھ پر
سو سو سورج دھوپ اگانے آتے ہیں
جسم دکاں ہے ذہن بکاؤ شہروں میں
جنگل تو دو چار دِوانے آتے ہیں
سلیم محی الدین
No comments:
Post a Comment