Tuesday, 1 March 2022

آئینوں سے دھول مٹانے آتے ہیں

 آئینوں سے دھول مٹانے آتے ہیں

کچھ موسم تو آگ لگانے آتے ہیں

نیند تو گویا ان آنکھوں کی دشمن ہے

مجھ کو پھر بھی خواب سہانے آتے ہیں

ان آنکھوں میں رنگ تمہارے کھلتے ہیں

یہ موسم کب پھول کھلانے آتے ہیں

رونا ہنسنا، ہنسنا رونا عادت ہے

ہم کو بھی کچھ درد چھپانے آتے ہیں

شبنم شبنم خواب اترتے ہیں مجھ پر

سو سو سورج دھوپ اگانے آتے ہیں

جسم دکاں ہے ذہن بکاؤ شہروں میں

جنگل تو دو چار دِوانے آتے ہیں


سلیم محی الدین

No comments:

Post a Comment