Wednesday, 2 March 2022

میں چپ ہوں ہجراں کبھی تو تم بھی تھکو گے آخر ستا ستا کر

 میں چپ ہوں ہجراں کبھی تو تم بھی تھکو گے آخر ستا ستا کر

کہ آوارگی اور تونگری کے سکون سارے لٹا لٹا کر

خیرات نالوں کی لاج رکھ کر کہ اتنی مہلت عطا ہو مالک

اگلی شب کے لیے تو رکھ لوں اداسیاں کچھ بچا بچا کر

میں مانتا ہوں مصیبتوں اور تلخیوں کی وفا کو بے شک

میں جتنا گھٹتا، وہ اتنی بڑھتیں قبائیں اپنی چھڑا چھڑا کر

جو سوگ مر جائیں اہلِ دل کی آبادیوں کے دلوں سے اکثر

اٹھائے جاتے ہیں پھر جنازے بین باجے بجا بجا کر

جو نیم خوابی میں کہہ کے آئے رقیب کی محفلوں میں کل شب

وہ ہنس رہے تھے گلی کے کونے پہ باتیں ساری سنا سنا کر

یہ ٹوٹ جائیں گے سنگ تمہارے مجھے زرا بھی شکن نہ ہو گی

میں پک چکا ہوں زماں کی بھٹی میں غربتوں سے نبھا نبھا کر

دھواں بھی اب تو نہیں نکلتا غریب کے دل سے حد ہے صاحب

کہ راکھ تک تو بہا دی ہم نے ان آنسوؤں سے بجھا  بجھا کر


فاروق بلوچ

No comments:

Post a Comment