میں چپ ہوں ہجراں کبھی تو تم بھی تھکو گے آخر ستا ستا کر
کہ آوارگی اور تونگری کے سکون سارے لٹا لٹا کر
خیرات نالوں کی لاج رکھ کر کہ اتنی مہلت عطا ہو مالک
اگلی شب کے لیے تو رکھ لوں اداسیاں کچھ بچا بچا کر
میں مانتا ہوں مصیبتوں اور تلخیوں کی وفا کو بے شک
میں جتنا گھٹتا، وہ اتنی بڑھتیں قبائیں اپنی چھڑا چھڑا کر
جو سوگ مر جائیں اہلِ دل کی آبادیوں کے دلوں سے اکثر
اٹھائے جاتے ہیں پھر جنازے بین باجے بجا بجا کر
جو نیم خوابی میں کہہ کے آئے رقیب کی محفلوں میں کل شب
وہ ہنس رہے تھے گلی کے کونے پہ باتیں ساری سنا سنا کر
یہ ٹوٹ جائیں گے سنگ تمہارے مجھے زرا بھی شکن نہ ہو گی
میں پک چکا ہوں زماں کی بھٹی میں غربتوں سے نبھا نبھا کر
دھواں بھی اب تو نہیں نکلتا غریب کے دل سے حد ہے صاحب
کہ راکھ تک تو بہا دی ہم نے ان آنسوؤں سے بجھا بجھا کر
فاروق بلوچ
No comments:
Post a Comment