Wednesday, 2 March 2022

جب دل میں غرور آئے تو دانائی بھی کیا ہے

نمکینیات


 جب دل میں غرور آئے تو دانائی بھی کیا ہے

جب رات اندھیری ہو تو بینائی بھی کیا ہے

جب ڈوبنا ٹھہرا ہے تو طوفاں کا کسے خوف

جب اشک سمندر ہوں تو گہرائی بھی کیا ہے

جب زخم ہوں سینے میں تو پھر درد ہے کیا چیز

گلشن میں مِرے موج ہوا لائی بھی کیا ہے

پھر غیر کے ہر جھوٹ پہ کرتا ہے یقیں وہ

پھر شوق کو سکتہ ہے کہ سچائی بھی کیا ہے

پھر عمر گریزاں نے کہا جاؤ، چلے جاؤ

کیا اس سے کہو گے وہاں سنوائی بھی کیا ہے

پھر دل نے کہا ہنس کے وہ صحرا ہو قفس ہو

جب اس سے بچھڑنا ہے تو تنہائی بھی کیا ہے

پھر ذکر مِرا سن کے کہا اس نے رئیس ایک

بس چاک گریباں ہے وہ سودائی بھی کیا ہے


رئیس علوی

No comments:

Post a Comment