جاؤ
تمہیں جانے دیا
تمام وعدوں سے آزاد کیا
جاؤ، تمہیں جانے دیا
اپنے دل کے دامن سے تمہارے پہلو کی گراہ کھول کر
اپنی محبت کو خزاں کے پتوں کی طرح رول کر
اپنے عشق کی تلخی کو
تیرے مستقبل کے سپنوں کی چاشنی میں گھول کر
جاؤ، تمہیں جانے دیا
سنو، ان بوسیدہ جذبوں کو یہیں رہنے دو
کمبخت دل تو کہتا ہی رہتا ہے، اسے کہنے دو
رخت سفر باندھ لو کہ کہیں دیر نہ ہو جائے
پیچھے مڑ کر نہ دیکھو کہیں من زیر نہ ہو جائے
میری خوابیدہ آنکھوں سے نیت سیر نہ ہو جائے
جاؤ، تمہیں جانے دیا
اب کے لوٹو گے تو سب بھلا کیسا ہو گا
جس طرح چھوڑ کر جاؤ گے کہاں ویسا ہو گا
داستانیں بدل چکی ہوں گی ہمارے ساتھ کی
لوگ بھی گواہی دیں گے بین کرتے حالات کی
جاؤ کے اب تم سے وابستہ نہیں خوشیوں کا جہاں
جاؤ کہ میرا قلب بھی اب ہے نوحا کناں
جاؤ، تمہیں جانے دیا
جاؤ، جاؤ کہ اب یہاں فقط اندھیرا ہے
تمہارے سامنے چمکتے آفتاب سا سویرا ہے
تمہارے قدموں میں کہکشاں کی راہگزاریں ہیں
اور یہاں پابندی عہد کا بسیرا ہے
جاؤ، آباد رہو بس یہی دعا ہے میری
کبھی غم نہ پاؤ یہ صدا ہے میری
کسی کے ہو جاؤ یہ آخری التجا ہے میری
جاؤ، تمہیں جانے دیا
رابعہ بگٹی
No comments:
Post a Comment