Wednesday, 2 March 2022

سنسناتی ہوئی چپل کی ہوا دے مجھ کو

سنسناتی ہوئی چپل کی ہوا دے مجھ کو

انگلیاں ڈال کے بالوں میں لٹا دے مجھ کو

قہر آلود نگاہوں سے مجھے دیکھتی ہے

ہاں کسی روز نہ مٹی میں ملا دے مجھ کو

جس طرح پالتو حیوان پلا کرتے ہیں

ایک کونا ہی سہی گھر میں جگہ دے مجھ کو

کام کرتے ہوئے تکلیف بھی ہوتی ہے مجھے

ہاں دوائی نہ سہی، پٹی کرا دے مجھ کو

ڈوب جاتا ہے مِرا دل تِری للکار کے ساتھ

صرف اک بار ہی نرمی سے صدا دے مجھ کو

سانس لینا مِرا دشوار ہوا کیوں یارب؟

ہے کرونا مِری بیگم، تو بتا دے مجھ کو

دیکھ میں ہو گیا کنگال فقیروں کی طرح

میری تحقیر نہ کر کوئی سزا دے مجھ کو

کام سے لوٹ کے جب آتا ہوں گھر کی جانب

ہائے کھانا نہ سہی چائے پلا دے مجھ کو

کر کے خالی مِری جیبیں وہ یہی کہتی ہے

اے مِری جان! نیا سوٹ دلا دے مجھ کو

ایسے جیون سے تو مرنا ہی کہیں بہتر ہے

روز مرنے سے تو بہتر ہے مٹا دے مجھ کو

میرے مولا! تِرا بیگم زدہ انسان ہوں میں

امتحاں ختم ہو میرا، تُو شفا دے مجھ کو

خوش ہو بیگم بھی تو دھڑکا سا لگا رہتا ہے

ہنستے ہنستے نہ کسی روز رُلا دے مجھ کو

زندگی ہے مِری پروانے کی صورت یارب

اپنی چنگاری سے بیگم نہ جلا دے مجھ کو

اپنی حالت سے ہیں واقف سبھی شوہر منصور

ایک گمنام سا قصہ ہوں، بُھلا دے مجھ کو


منصور نقوی

No comments:

Post a Comment