نسبت ہے کسبِ قیس کے ہر دور سے مجھے
باندھا گیا ہے عشق کی اک ڈور سے مجھے
اک چُپ سِکھا گئی ہے مجھے گفتگو کے پیچ
قائل نہ کیجیۓ گا کبھی شور سے مجھے
دہلیزِ خواب گاہ پہ اک چشمِ نِیم باز
آ کر جنجھوڑتی ہے بڑے زور سے مجھے
ڈرتا ہوں ایک دِن یہ کہیں بول نہ پڑے
دیوار سُن رہی ہے بڑے غور سے مجھے
اک تو متاعِ جان و جگر لُوٹ لی گئی
اس پر سزا بھی خوب ملی چور سے مجھے
مانا کہ ہوں غلام، تِری دسترس میں ہوں
جا کر خرید لاؤ کسی اور سے مجھے
عاطف جاوید عاطف
No comments:
Post a Comment