Thursday, 1 December 2022

جو تھا اک خواب بچپن کا اسے تعبیرنے میں

 جو تھا اک خواب بچپن کا اسے تعبیرنے میں

میں بوڑھا ہو گیا چھوٹا سا گھر تعمیرنے میں

وہ اپنے زعم میں خود کو خدا سمجھے ہوئے تھا

مزہ آیا مجھے اس کی انا تسخیرنے میں

بس اس نے کُن کہا اور ہو گئی تخلیق دنیا

ہمیں صدیاں لگیں اک حرف کو تحریرنے میں

کبھی  مت کھولنا تابوت اس وحشی ہوا کا

بکھر کے رہ گیا ہوں میں جسے زنجیرنے میں

سنا ہے پھر کوئی گل مسئلہ بن کر کھلا ہے

کہیں تم تو نہ تھے دامن کلی کا چیرنے میں

مجھے ڈر ہے میں خود تصویر بن کر رہ نہ جاؤں

طلب اس عہد کی تصویر کو تصویرنے میں


خورشید طلب

No comments:

Post a Comment