جو تھا اک خواب بچپن کا اسے تعبیرنے میں
میں بوڑھا ہو گیا چھوٹا سا گھر تعمیرنے میں
وہ اپنے زعم میں خود کو خدا سمجھے ہوئے تھا
مزہ آیا مجھے اس کی انا تسخیرنے میں
بس اس نے کُن کہا اور ہو گئی تخلیق دنیا
ہمیں صدیاں لگیں اک حرف کو تحریرنے میں
کبھی مت کھولنا تابوت اس وحشی ہوا کا
بکھر کے رہ گیا ہوں میں جسے زنجیرنے میں
سنا ہے پھر کوئی گل مسئلہ بن کر کھلا ہے
کہیں تم تو نہ تھے دامن کلی کا چیرنے میں
مجھے ڈر ہے میں خود تصویر بن کر رہ نہ جاؤں
طلب اس عہد کی تصویر کو تصویرنے میں
خورشید طلب
No comments:
Post a Comment