Monday 12 December 2022

محبتیں بھی لکھی ہوئی ہیں عداوتیں بھی لکھی ہوئی ہیں

 محبتیں بھی لکھی ہوئی ہیں عداوتیں بھی لکھی ہوئی ہیں 

کتابِ دل میں تو جینے مرنے کی مُدتیں بھی لکھی ہوئی ہیں 

برہنہ پیڑوں کے زاویوں میں گھنے اندھیرے اُگے ہیں لیکن 

انہی اندھیروں میں روشنی کی عبارتیں بھی لکھی ہوئی ہیں 

یہی زمیں ہے، کہ جس نے مجھ کو مِرا ہی قاتل بنا دیا ہے 

اسی زمیں پر مِرے لہو کی شہادتیں بھی لکھی ہوئی ہیں 

حنوط چہروں کے آئینوں میں ہوا کی لہروں نے یہ بھی دیکھا 

کھنڈر کھنڈر پر نئے دنوں کی بشارتیں بھی لکھی ہوئی ہیں 

مِری نظر میں سراغِ منزل شعور بن کر چمک رہا ہے

مِری جبیں پر کڑے سفر کی مسافتیں بھی لکھی ہوئی ہیں 

ستم کے ماروں کی بے حسی کو تماشا گاہوں میں لانے والو 

نحیف جسموں کی بے بسی میں بغاوتیں بھی لکھی ہوئی ہیں 

جدید حرفوں کے دائروں میں پرانی خوشبو رچی ہوئی ہے 

صدا کے رُخ پر گئی رُتوں کی شباہتیں بھی لکھی ہوئی ہیں 

زمیں کی ٹھنڈی تہوں کے اندر الاؤ کروٹ بدل رہے ہیں 

ہوا کے ساکت پنے پہ اطہر! قیامتیں بھی لکھی ہوئی ہیں


اطہر سلیمی

No comments:

Post a Comment