بسر جو ہونا تھے قصوں میں داستانوں میں
گزر گئے وہی لمحات کارخانوں میں
پڑھا رہا ہے کوئی مجھ کو ہیر وارث شاہ
سو مجھ کو ڈھونڈ کہیں بانسری کی تانوں میں
قدیم روح مِرے جسم میں رکھی گئی ہے
میں جی رہا ہوں بہ یک وقت دو زمانوں میں
معاش، عشق، اقارب، دعائیں، دوست، عدو
اس ایک عمر کو بانٹا ہے کتنے خانوں میں
اتر رہی ہے غزل مجھ پہ رزق کی صورت
اور اس میں عشق بھی ہے شکر ہی کے معنوں میں
نوازش علی ندیم
No comments:
Post a Comment