Monday, 12 December 2022

بسر جو ہونا تھے قصوں میں داستانوں میں

 بسر جو ہونا تھے قصوں میں داستانوں میں

گزر گئے وہی لمحات کارخانوں میں

پڑھا رہا ہے کوئی مجھ کو ہیر وارث شاہ

سو مجھ کو ڈھونڈ کہیں بانسری کی تانوں میں

قدیم روح مِرے جسم میں رکھی گئی ہے

میں جی رہا ہوں بہ یک وقت دو زمانوں میں

معاش، عشق، اقارب، دعائیں، دوست، عدو

اس ایک عمر کو بانٹا ہے کتنے خانوں میں

اتر رہی ہے غزل مجھ پہ رزق کی صورت

اور اس میں عشق بھی ہے شکر ہی کے معنوں میں


نوازش علی ندیم

No comments:

Post a Comment