Sunday 11 December 2022

ہم تو اب جاتی رتیں ہیں ہم سے یہ اغماض کیوں

 ہم تو اب جاتی رتیں ہیں ہم سے یہ اغماض کیوں

جرم کیا ہم نے کیا ہے آپ ہیں ناراض کیوں

مال و زر سے بہرہ وافر نہ دینا تھا اگر

اے خدا تُو نے دیا مجھ کو دل فیاض کیوں

رشتہ زر رشتہ خوں سے ہے بڑھ کر معتبر

ورنہ چاہت کے لیے قرضہ بنے مقراض کیوں

خویش بینی جب کہ اس کا کیش کم اندیش تھا

دوستی کا پاس کرتا بندۂ اغراض کیوں

کیا نئی تہذیب ہے تکذیبِ اقدارِ سلیم

شہر میں پھیلے ہوئے ہیں جنس کے امراض کیوں

لطف اندوز ریاضِ دہر کیوں ہوتے نہیں

داورا کم ظرف ہوتے ہیں تِرے مرتاض کیوں

کچھ حقائق کو اگر میں نے کیا ہے بے نقاب

ہو گئے ناراض مجھ سے شعر کے نباض کیوں

پوچھتے ہیں دے کے مجھ کو دوست داری کا فریب

کرشن موہن دوستوں سے اس قدر اعراض کیوں


کرشن موہن

No comments:

Post a Comment