Saturday, 10 December 2022

دسمبر تم سے کہنا تھا دسمبر تم چلے جاؤ

 دسمبر 


دسمبر تم سے کہنا تھا

اکیلے کیوں چلے آئے؟

انہیں  بھی ساتھ لاتے ناں

جو پچھلے دسمبر میں

محبت کی اذان بن کر

پیارا سا گماں بن کر

چاہت کی زباں بن کر

میری خاطر مکاں  بن کر

میرا دل میری جاں بن کر

وہ لمحے  ساتھ لائے تھے

جو ہم نے سنگ بتائے تھے

دسمبر یاد ہے تم کو؟

ٹھٹھرتی راتوں میں حِدت بھرے وعدے

کچھ ایسے چُھو گئے ہم کو

کچھ ایسے آ لگے دل سے

کہ جیسے بس محبت ھو

برف باری تھی راتوں میں

ہوائیں سرد تھیں ظالم

مگر خوابوں کی چادر اوڑھ لی ہم نے

اس کے سوا یہ دنیا چھوڑ دی ہم نے

مگر یہ کیا؟

کہ جیسے برف کے پگھلتے ہی

سفیدی غائب ہوتے ہی

منظر اصل کی صورت سامنے آتے ہیں

دسمبر معلوم ہے تم کو؟

برف کے پگھلتے ہی جو منظر سامنے آئے تھے

ان میں نہیں تھا وہ

بہت روئی بہت ڈھونڈا

مگر وہ پھر نہیں لوٹا

سنا ہے اب کے دسمبر سے ذرا پہلے

نیا کوئی ہاتھ تھاما ہے

اس نے نیا رشتہ بنایا ہے 

اس سال یہ موسم کسی اور سنگ آیا ہے

اب کے دسمبر میں یہی سوچیں ہیں سینے میں

کیا نظر آیا تھا ہم کو اس کمینے میں

دسمبر تم چلے جاؤ

دسمبر تم چلے جاؤ


راحیلہ بیگ چغتائی

No comments:

Post a Comment