جاں ہوا یوں ہوئی اس خال کا بوسہ لے کر
جیسے اڑ جائے دہن میں کوئی گٹکا لے کر
تیرا بیمار نہ سنبھلا جو سنبھالا لے کر
چپکے ہی بیٹھ رہے دم کو مسیحا لے کر
شرط ہمت نہیں مجرم ہو گرفتارِ عذاب
تُو نے کیا چھوڑا اگر چھوڑے گا بدلہ لے کر
ذبح کرنے کو مِرے پوچھے کیا ہو تکبیر
تم چھری پھیر بھی دو نام خدا کا لے کر
کھینچتی روزِ قیامت سے بھی ہے آپ کو دور
تیری زلفوں کی بلاؤں سے شبِ یلدا لے کر
مجھ سا مشتاقِ جمال ایک نہ پاؤ گے کہیں
گرچہ ڈھونڈو گے چراغ رُخ زیبا لے کر
جبکہ دیکھا نہ ملا مجھ میں کہیں میرا پتا
پھر گیا نامہ برِ یار خط اُلٹا لے کر
واں سے یاں آئے تھے اے ذوق کیا لائے تھے
یاں سے تو جائیں گے ہم لاکھ تمنا لے کر
ابراہیم ذوق
No comments:
Post a Comment