Saturday 10 December 2022

زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پہ بند ہیں

 ایک درخواست


زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پہ بند ہیں 

دیکھنا حد نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے 

سوچنا اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے 

آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے 

کیوں بھی کہنا جرم ہے کیسے بھی کہنا جرم ہے 

سانس لینے کی تو آزادی میسر ہے، مگر 

زندہ رہنے کے لیے انسان کو کچھ اور بھی درکار ہے 

اور اس کچھ اور بھی کا تذکرہ بھی جرم ہے 

اے خداوندانِ ایوانِ عقائد 

اے ہنر مندانِ آئین و سیاست 

زندگی کے نام پر بس اک عنایت چاہیے 

مجھ کو ان سارے جرائم کی اجازت چاہیے


احمد ندیم قاسمی 

No comments:

Post a Comment