وہ ابر جو مے خوار کی تربت پہ نہ برسے
کہہ دو کہ خدارا کبھی گزرے نہ ادھر سے
اتنا تو ہوا آہِ شبِ غم کے اثر سے
فطرت کا جگر پھوٹ بہا چشمِ سحر سے
امید نے بھی یاس کے مردوں کو پکارا
آئی کوئی آواز نہ دل سے نہ جگر سے
ناصح کو بلاؤ، مِرا ایمان سنبھالے
پھر دیکھ لیا اس نے اسی ایک نظر سے
خورشید قیامت کی ادا دیکھ رہا ہوں
ملتی ہوئی صورت ہے مِرے داغِ جگر سے
ایک ایک قدم پر ہے جہاں خندۂ تقدیر
تدبیر گزرتی ہے اسی راہ گزر سے
اے خندۂ گلشن یہ ہے انجامِ شبِ عیش
گل روتے ہیں نہ منہ ڈھانپ کے دامانِ سحر سے
کچھ شان کریمی نے اس انداز سے تولا
بھاری ہی رہا دیدۂ تر دامنِ تر سے
خطرے میں ہیں کچھ دن سے حفیظ اہلِ دو عالم
ہر شب میرے نالوں کی لڑائی ہے اثر سے
حفیظ جالندھری
No comments:
Post a Comment