اک جوئے شیر سے مفتوح کدھر ہوتی ہے
زلفِ شیریں بڑے خلجان سے سر ہوتی ہے
کب سے بیٹھے ہیں سرِ راہ اثاثہ لے کر
دیکھیے کب کسی رہزن کی نظر ہوتی ہے
مل گئے ہو مجھے رستے میں تو ہنس کر بولو
یہ ملاقات کہاں بارِِ دگر ہوتی ہے
نرم لفظوں سے بھی لگ جاتی ہیں چوٹیں دل پر
دوستی اک بڑا نازک سا ہُنر ہوتی ہے
رات کے گھر ہی ٹھہرتا ہے ہمیشہ خورشید
رات کے گھر سے ہی تخلیقِ سحر ہوتی ہے
اب توجہ کا تقاضا ہی غلط ہے ان سے
دل کی قیمت تو فقط ایک نظر ہوتی ہے
ہے خوشی نام کسی شے کا یقیناً لیکن
یہ کسی کو نہیں معلوم کدھر ہوتی ہے
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment