یہ شہر شہر بلا بھی ہے کینہ ساز کے ساتھ
نکل چلو کسی محبوب دل نواز کے ساتھ
یہی نوائے عدم ہے یہی نوازش کن
خوشا حکایت نے حرف نے نواز کے ساتھ
سوئے نگار و سوئے شہر زر نگار چلیں
قلندرانِ ہوسناک و پاک باز کے ساتھ
سلام ہم نفسو،۔ الفراق ہم سفرو
سفر ہے دور کا وہ بھی رہ دراز کے ساتھ
یہ خرقہ پوش فقیران خارق العادات
ہمارے قافلہ ہائے نیاز و ناز کے ساتھ
یہ جنگلوں کی مسافت یہ نغمۂ دف و چنگ
یہ وادیوں میں اقامت سرود و ساز کے ساتھ
وہ وجد و حال کا عالم وہ رقص درویشاں
شہان ناز و گدایان بے نیاز کے ساتھ
خوشا وہ بانگ اذاں وہ ترانۂ ناقوس
وہ بندگی صنم بندۂ نماز کے ساتھ
ہر اک فقیر کے لب پر یہ نعرۂ مستان
چلے چلو ادب و عز و امتیاز کے ساتھ
رئیس امروہوی
No comments:
Post a Comment