قطرے میں بھی چھپے ہیں بھنور رقص کیجیے
قیدِ صدف میں مثلِ گہر رقص کیجیے
کیجے فسردگیٔ طبیعت کا کچھ علاج
اس خاکداں میں مثلِ شرر رقص کیجیے
اک نوجواں نے آج بزرگوں سے کہہ دیا
ہوتی نہیں جو عمر بسر، رقص کیجیے
سُوجے ہیں پاؤں آنکھ سے ہی تال دیجئے
اُلجھا ہوا ہے تارِ نظر رقص کیجیے
گردش میں اک ستارۂ بے چارہ ہی نہیں
ہے آسماں بھی زیر و زبر رقص کیجیے
گزرے جو ماہ و سال تو لے بھی بدل گئی
اب کے برس بہ رنگِ دگر رقص کیجیے
فریاد کیجیے، نہ کوئی ظلم ڈھائیے
اک وہم ہے شکست و ظفر رقص کیجیے
اس طائفے میں ایک کمی ہے تو آپ کی
اے دشمنانِ علم و ہنر! رقص کیجیے
فیشن ہے آج کل کا مداری کی ڈگڈگی
دل چاہے یا نہ چاہے مگر رقص کیجیے
اپنی تو جھونپڑی میں تھرکتا نہیں چراغ
جا کر کسی رقیب کے گھر رقص کیجیے
سید! نہ ریڈیو نہ سینما ہے آپ کا
اپنے ہی گیت گائیے اور رقص کیجیے
مظفر علی سید
No comments:
Post a Comment