ہجر دل کا کینسر ہے
جیسے شدید پیاس کے عالم میں سمندر کے عادی شخص کو
بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا جائے
اور اس کی آنکھیں نکال کر اپنے پاؤں تلے روند کر جانے والا
جاتے جاتے اسے اپنی آواز تک بھی نہ سنائے
وہ آواز جس کو سنتے ہی
پیاسے کانوں کی پیاس بھجتی ہے
اندھے کو دید کی امید نظر آتی ہے
ٹوٹے پر والے پرندے کو جینے کا حوصلہ ملتا ہے
بے اولاد جوڑے کے ہاں
بیس سال بعد جڑواں بیٹوں کی پیدائش کی خوشی
تو اس کی آواز کے آگے کچھ بھی نہیں
زندان میں قید زندگی کے آخری دن گننے والا قیدی
رہائی کی دعا مانگنے لگتا ہے
ٹوٹی پتنگ اچانک اڑان بھرنے لگتی ہے
سوکھے پھول مہکنے لگتے ہیں
بادل اپنی لڑائی چھوڑ کر
خاموشی سے اس کو دیکھنے لگتے ہیں
بارش پھول برساتی ہے
رات کے سینے پہ روشنی کی پہلی ضرب پڑ کر
سیاہی کا زور توڑ دیتی ہے
ستارے چاند سے منہ پھیر کر
اسے ڈھونڈنے نکل پڑتے ہیں
تو اسے کہو وہ آواز سنا کر جائے
کیونکہ شاید اس کو نہیں پتا مگر
میں جانتی ہوں کہ ہجر دل کا کینسر ہے
اقراء عافیہ
No comments:
Post a Comment