Sunday, 11 December 2022

میں جانتی ہوں کہ ہجر دل کا کینسر ہے

 ہجر دل کا کینسر ہے


جیسے شدید پیاس کے عالم میں سمندر کے عادی شخص کو 

بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا جائے 

اور اس کی آنکھیں نکال کر اپنے پاؤں تلے روند کر جانے والا 

جاتے جاتے اسے اپنی آواز تک بھی نہ سنائے

وہ آواز جس کو سنتے ہی

پیاسے کانوں کی پیاس بھجتی ہے

اندھے کو دید کی امید نظر آتی ہے

ٹوٹے پر والے پرندے کو جینے کا حوصلہ ملتا ہے

بے اولاد جوڑے کے ہاں 

بیس سال بعد جڑواں بیٹوں کی پیدائش کی خوشی 

تو اس کی آواز کے آگے کچھ بھی نہیں

زندان میں قید زندگی کے آخری دن گننے والا قیدی 

رہائی کی دعا مانگنے لگتا ہے

ٹوٹی پتنگ اچانک اڑان بھرنے لگتی ہے

سوکھے پھول مہکنے لگتے ہیں

بادل اپنی لڑائی چھوڑ کر 

خاموشی سے اس کو دیکھنے لگتے ہیں

بارش پھول برساتی ہے

رات کے سینے پہ روشنی کی پہلی ضرب پڑ کر 

سیاہی کا زور توڑ دیتی ہے

ستارے چاند سے منہ پھیر کر 

اسے ڈھونڈنے نکل پڑتے ہیں

تو اسے کہو وہ آواز سنا کر جائے 

کیونکہ شاید اس کو نہیں پتا مگر 

میں جانتی ہوں کہ ہجر دل کا کینسر ہے


اقراء عافیہ

No comments:

Post a Comment