Saturday, 17 December 2022

چپ رہوں تو یہ مرے یار کی حق تلفی ہے

 چپ رہوں تو یہ مِرے یار کی حق تلفی ہے 

بات کرتا ہوں تو پندار کی حق تلفی ہے

رو تو لوں تیرے گلے لگ کے مِرے دوست مگر

میں سمجھتا ہوں یہ دیوار کی حق تلفی ہے

سہہ تو سکتا ہوں مگر چیختا اس واسطے ہوں

ہنس کے سہنا تِرے آزار کی حق تلفی ہے

بعد میرے بھی کہانی میں رہے لطف تو یہ

سیدھی سیدھی مِرے کردار کی حق تلفی ہے

میں تِری سمت چلوں اور تُو مل بھی جائے

یہ تو لا حاصل و دشوار کی حق تلفی ہے


عبدالوہاب عبدل

No comments:

Post a Comment