چپ رہوں تو یہ مِرے یار کی حق تلفی ہے
بات کرتا ہوں تو پندار کی حق تلفی ہے
رو تو لوں تیرے گلے لگ کے مِرے دوست مگر
میں سمجھتا ہوں یہ دیوار کی حق تلفی ہے
سہہ تو سکتا ہوں مگر چیختا اس واسطے ہوں
ہنس کے سہنا تِرے آزار کی حق تلفی ہے
بعد میرے بھی کہانی میں رہے لطف تو یہ
سیدھی سیدھی مِرے کردار کی حق تلفی ہے
میں تِری سمت چلوں اور تُو مل بھی جائے
یہ تو لا حاصل و دشوار کی حق تلفی ہے
عبدالوہاب عبدل
No comments:
Post a Comment