حراس و خوف ملے ثانوی سا ڈر نہ ملے
حریف وہ ہے جس کی آنکھ سے نظر نہ ملے
غزل جو تیرہ زمینوں کا ہے سفر نہ ملے
ہماری جانشیں نسلوں کو یہ حضر نہ ملے
وہ جن کے ایک اشارے پہ اپنے رب سے گئے
سرِ صلیب ہمیں وہ پیامبر نہ ملے
شکم کی آگ میں جلتے ہیں رنج خور تمام
تِرے ستم کا شجر جب بھی بارور نہ ملے
ہمارے خانۂ جاں تک براستائے سخن
سفر ہے ایک جہاں رہبر و خضر نہ ملے
کوئی وہ پرچم۔ سپید لائے جس کے تئیں
درونِ ذات یہ گھمسان کا غدر نہ ملے
نہیں جچے کا تِرے معبدوں پہ کوئی کرم
ہر ایک منکر و ملحد کو داد اگر نہ ملے
شبِ زوال کے جاگے ہوؤں کو بعض اوقات
کنارِ عمر پہ بھی صبح کے گجر نہ ملے
بقا وہ روزنِ دیوار جو نہ سونے دے
فنا وہ تیر جو سینے سے عمر بھر نہ ملے
زمینِ شعر تِرے ممبروں کی خیر کہ یاں
ملیں ہیں کون و مکاں، خواہشِ دگر نہ ملے
ماہ نور رانا
No comments:
Post a Comment