صرف دن پر ہی یہ الزام نہیں ہے مِرے دوست
مہلتِ شب میں بھی آرام نہیں ہے مرے دوست
عشق کی راہ پہ رہبر کے قدم مل جانا
ایک آغاز ہے، انجام نہیں ہے مرے دوست
چھوڑ کر مجھ کو کسی اور کا ہو جا، لیکن
اتنا آسان بھی یہ کام نہیں ہے مرے دوست
بس تجھے آنکھوں سے میں دور نہیں کر سکتا
میرے جذبے کا کوئی نام نہیں ہے مرے دوست
تجھ کو احساس دلانا تھا، سو پتھر پھینکا
یہ کسی جنگ کا پیغام نہیں ہے مرے دوست
محضر عشق میں زخموں کی سلامی ہے صلہ
یاں، کوئی تمغہ و انعام نہیں ہے مرے دوست
تشنگی ڈھونڈ رہی ہے مجھے ساحل ساحل
میرے ہاتھوں میں کوئی جام نہیں ہے مرے دوست
توقیر رضا
No comments:
Post a Comment