درد کی دھوپ بھرے دل کی تمازت لے کر
کیسے جائے کوئی احساس کی ہجرت لے کر
پھر کہاں جائیے؟ اب بیٹھیے ماتم کیجے
دل کے ہاتھوں میں یہ انمول شرافت لے کر
کیا کہیں اب تو نکلنا بھی بہت مشکل ہے
اپنے کاندھے پہ خود اپنی ہی ضمانت لے کر
پیٹ کی بھوک تماشے پہ تماشہ کر لے
ہم تھکیں گے نہیں اس بھوک کی عادت لے کر
اپنے بستر پہ کسی رات ہمیں نیند آتی
اور پھر خواب نہیں آتے ضرورت لے کر
دیکھیے سوچیۓ محسوس تو ہونے دیجے
درد کی دھوپ میں احساس کی لذت لے کر
ظفر امام
No comments:
Post a Comment