Saturday, 17 December 2022

درد کی دھوپ بھرے دل کی تمازت لے کر

 درد کی دھوپ بھرے دل کی تمازت لے کر

کیسے جائے کوئی احساس کی ہجرت لے کر

پھر کہاں جائیے؟ اب بیٹھیے ماتم کیجے

دل کے ہاتھوں میں یہ انمول شرافت لے کر

کیا کہیں اب تو نکلنا بھی بہت مشکل ہے

اپنے کاندھے پہ خود اپنی ہی ضمانت لے کر

پیٹ کی بھوک تماشے پہ تماشہ کر لے

ہم تھکیں گے نہیں اس بھوک کی عادت لے کر

اپنے بستر پہ کسی رات ہمیں نیند آتی

اور پھر خواب نہیں آتے ضرورت لے کر

دیکھیے سوچیۓ محسوس تو ہونے دیجے

درد کی دھوپ میں احساس کی لذت لے کر


ظفر امام

No comments:

Post a Comment