جہاں جہاں ہیں زمیں پر قدم نشاں اس کے
ہر اس جگہ کو ستارے اتر کے دیکھتے ہیں
ہوا ہے تیز سنبھالے گا ان میں کتنوں کو
شجر کا حوصلہ پتے شجر کے دیکھتے ہیں
اسے بھی شوق ہے کچھ دھجیاں اڑانے کا
کچھ اپنی وسعتیں ہم بھی بکھر کے دیکھتے ہیں
ادھر کے سُکھ نے تو ہجرت پہ کر دیا مجبورِ
اُدھر ہے کیا؟ چلو دریا اتر کے دیکھتے ہیں
گئے تھے چھوڑ کے ہم جس جگہ مکاں اپنا
نشاں بس اب وہاں دیوار و در کے دیکھتے ہیں
نہ یوں مٹا سکے شاید ہمیں جو وہ دلدار
ہے سنگ دل تو سر سنگ ابھر کے دیکھتے ہیں
اظہار وارثی
No comments:
Post a Comment