Saturday 17 December 2022

جہاں جہاں ہیں زمیں پر قدم نشاں اس کے

 جہاں جہاں ہیں زمیں پر قدم نشاں اس کے

ہر اس جگہ کو ستارے اتر کے دیکھتے ہیں

ہوا ہے تیز سنبھالے گا ان میں کتنوں کو

شجر کا حوصلہ پتے شجر کے دیکھتے ہیں

اسے بھی شوق ہے کچھ دھجیاں اڑانے کا

کچھ اپنی وسعتیں ہم بھی بکھر کے دیکھتے ہیں

ادھر کے سُکھ نے تو ہجرت پہ کر دیا مجبورِ

اُدھر ہے کیا؟ چلو دریا اتر کے دیکھتے ہیں

گئے تھے چھوڑ کے ہم جس جگہ مکاں اپنا

نشاں بس اب وہاں دیوار و در کے دیکھتے ہیں

نہ یوں مٹا سکے شاید ہمیں جو وہ دلدار

ہے سنگ دل تو سر سنگ ابھر کے دیکھتے ہیں


اظہار وارثی

No comments:

Post a Comment