وہ بھیجتا تھا دلاسے تو اعتماد بھرے
مگر یہ زخم بڑی مدتوں کے بعد بھرے
قسم خدا کی بغاوت کی سمت کھینچتے ہیں
یہ سب رویے تعصب بھرے، عناد بھرے
کہیں پہ عکس مکمل، کہیں ادھورے تھے
جو آئینے بھی میسر تھے سب تضاد بھرے
یہ عشق ایک دن اپنی ہوس دکھائے گا
سو نظریات بدل لینا اعتقاد بھرے
جو ماں کے پیار سے گوندھے ہوئے تھے کھانوں میں
وہ ذائقے ہی نہیں بھولتے سواد بھرے
ابھی بھی چیر کے رکھتے ہیں سب رگیں دل کی
تمہارے آخری نامے جو تھے فساد بھرے
یہ صرف دھاگے نہیں ہوں گے منتوں والے
یہ خواب ہوں گے کسی شخص کے مُراد بھرے
میں جا رہی ہوں بہت دور، اپنی آنکھوں میں
بہت سے اشک بھرے، ڈھیروں ڈھیر یاد بھرے
کومل جوئیہ
No comments:
Post a Comment