Thursday 15 December 2022

وہ بھیجتا تھا دلاسے تو اعتماد بھرے

 وہ بھیجتا تھا دلاسے تو اعتماد بھرے

مگر یہ زخم بڑی مدتوں کے بعد بھرے

قسم خدا کی بغاوت کی سمت کھینچتے ہیں

یہ سب رویے تعصب بھرے، عناد بھرے

کہیں پہ عکس مکمل، کہیں ادھورے تھے

جو آئینے بھی میسر تھے سب تضاد بھرے

یہ عشق ایک دن اپنی ہوس دکھائے گا

سو نظریات بدل لینا اعتقاد بھرے

جو ماں کے پیار سے گوندھے ہوئے تھے کھانوں میں

وہ ذائقے ہی نہیں بھولتے سواد بھرے

ابھی بھی چیر کے رکھتے ہیں سب رگیں دل کی

تمہارے آخری نامے جو تھے فساد بھرے

یہ صرف دھاگے نہیں ہوں گے منتوں والے

یہ خواب ہوں گے کسی شخص کے مُراد بھرے

میں جا رہی ہوں بہت دور، اپنی آنکھوں میں

بہت سے اشک بھرے، ڈھیروں ڈھیر یاد بھرے


کومل جوئیہ

No comments:

Post a Comment