بہت نحیف ہے طرزِ فغاں بدل ڈالو
نظامِ دہر کو نغمہ گراں بدل ڈالو
دل گرفتہ تنوع ہے زندگی کا اصول
مکاں کا ذکر تو کیا لا مکاں بدل ڈالو
نہ کوئی چیز دوامی نہ کوئی شے محفوظ
یقیں سنبھال کے رکھو گماں بدل ڈالو
نیا بنایا ہے دستورِ عاشقی ہم نے
جو تم بھی قاعدۂ دلبراں بدل ڈالو
اگر یہ تختۂ گل زہر ہے نظر کے لیے
تو پھر ملازمت گلستاں بدل ڈالو
جو ایک پل کے لیے خود بدل نہیں سکتے
یہ کہہ رہے ہیں کہ سارا جہاں بدل ڈالو
تمہارا کیا ہے مصیبت ہے لکھنے والوں کی
جو دے چکے ہو وہ سارے بیاں بدل ڈالو
مجھے بتایا ہے سید نے نسخۂ آساں
جو تنگ ہو تو زمیں آسماں بدل ڈالو
مظفر علی سید
No comments:
Post a Comment