چڑھتی کہیں کہیں سے اترتی ہیں سیڑھیاں
جانے کہاں کہاں سے گزرتی ہیں سیڑھیاں
یادوں کے جھلملاتے ستارے لیے ہوئے
ماضی کی کہکشاں سے اترتی ہیں سیڑھیاں
لیتی ہیں یوں سفر میں مسافر کا امتحاں
ہموار راستوں پہ ابھرتی ہیں سیڑھیاں
کرتی ہیں سر غرور کا نیچے اتار کر
پستی کا سر بلند بھی کرتی ہیں سیڑھیاں
تاریکیوں کو اوڑھ کے سوتی ہیں رات بھر
سورج کی روشنی میں نکھرتی ہیں سیڑھیاں
ہلتی نہیں ہلائے سے ثابت قدم تلے
مہکیں اگر قدم تو بہکتی ہیں سیڑھیاں
منبر پہ چڑھ کے بیٹھتی ہیں واعظوں کے ساتھ
رندوں سے چھیڑ چھاڑ بھی کرتی ہیں سیڑھیاں
جب کوئی حال پوچھنے آئے نہ مدتوں
اندر سے ٹوٹ پھوٹ کے مرتی ہیں سیڑھیاں
یادوں کے پھونک پھونک کے رکھنے پڑے قدم
زخموں سے دل کے جب بھی سنورتی ہیں سیڑھیاں
لیتی ہیں بڑھ کے سب کے قدم تو لگا مجھے
تنہائی کے عذاب سے ڈرتی ہیں سیڑھیاں
یوں دل میں تیری بات اترتی ہے خواہ مخواہ
گہرے کنویں میں جیسے اترتی ہیں سیڑھیاں
غوث خواہ مخواہ
خواہ مخواہ حیدرآبادی
No comments:
Post a Comment