Thursday, 15 December 2022

چڑھتی کہیں کہیں سے اترتی ہیں سیڑھیاں

 چڑھتی کہیں کہیں سے اترتی ہیں سیڑھیاں

جانے کہاں کہاں سے گزرتی ہیں سیڑھیاں

یادوں کے جھلملاتے ستارے لیے ہوئے

ماضی کی کہکشاں سے اترتی ہیں سیڑھیاں

لیتی ہیں یوں سفر میں مسافر کا امتحاں

ہموار راستوں پہ ابھرتی ہیں سیڑھیاں

کرتی ہیں سر غرور کا نیچے اتار کر

پستی کا سر بلند بھی کرتی ہیں سیڑھیاں

تاریکیوں کو اوڑھ کے سوتی ہیں رات بھر

سورج کی روشنی میں نکھرتی ہیں سیڑھیاں

ہلتی نہیں ہلائے سے ثابت قدم تلے

مہکیں اگر قدم تو بہکتی ہیں سیڑھیاں

منبر پہ چڑھ کے بیٹھتی ہیں واعظوں کے ساتھ

رندوں سے چھیڑ چھاڑ بھی کرتی ہیں سیڑھیاں

جب کوئی حال پوچھنے آئے نہ مدتوں

اندر سے ٹوٹ پھوٹ کے مرتی ہیں سیڑھیاں

یادوں کے پھونک پھونک کے رکھنے پڑے قدم

زخموں سے دل کے جب بھی سنورتی ہیں سیڑھیاں

لیتی ہیں بڑھ کے سب کے قدم تو لگا مجھے

تنہائی کے عذاب سے ڈرتی ہیں سیڑھیاں

یوں دل میں تیری بات اترتی ہے خواہ مخواہ

گہرے کنویں میں جیسے اترتی ہیں سیڑھیاں


غوث خواہ مخواہ 

خواہ مخواہ حیدرآبادی

No comments:

Post a Comment