صرف باتوں سے بہل جانے کا قائل تو نہیں
دل مِرا سادہ ہے احساس سے غافل تو نہیں
وار کرتا ہے نظر سے یہی قاتل تو نہیں
چوٹ کھا کر جو تڑپتا ہے مِرا دل تو نہیں
شور و غل بڑھتا ہی جاتا ہے مِرے کانوں میں
دل میں جو ہے وہی طوفاں لب ساحل تو نہیں
قافلے والوں نے بستر جہاں اپنے کھولے
سچ تو یہ ہے وہ مِرے نام کی منزل تو نہیں
سامنا ہو تو پتہ بھی چلے پھر کون ہے کیا
میں نے مانا کہ کوئی مِرے مقابل تو نہیں
محفلیں اور بھی ہیں حسن و ادا کی، لیکن
تیری محفل کی طرح اب کوئی محفل تو نہیں
ہم تو تیار ہیں اک حشر اٹھانے کے لیے
آپ خود ہی کسی طوفان سے غافل تو نہیں
دور ہی سے نظر آ جاتا ہے جامی تیرا
بھیڑ میں رہ کے بھی وہ بھیڑ میں شامل تو نہیں
عبدالرحمٰن جامی
No comments:
Post a Comment