تنہائی
شہر کتنے جھلس گئے
خون انساں سے کتنے دریا سرخ ہوئے
کتنے دنوں بعد جب امن بپا ہوا
ندیوں میں پانی بہا
لوگ زندگی کی طرف لوٹے
مگر تم نا نکل سکے اس ایک شخص کے مدار سے
وہ جو محض چند لمحوں کے لیے آیا تھا
اس کی جانب بڑھنے کا
تم نے شروعاتی دنوں میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا
مگر تم اس کی جانب مائل ہوئے
دل سے گھائل ہوئے
اب تو وہ بھی نہیں
نا وہ دن ہیں، نا وہ تو ہے
مگر یہ روگ کیوں روز نیا ہو جاتا ہے
خیر اب وہ نہ پلٹے گا
تو بھی اور کتنے سال ایسا رہے گا
لوگ آتے جاتے رہتے ہیں
آدمی مگر لوگوں سے دل نہ لگائے
آدمی دل رکھتا ہے
آدمی، آدمی کو نہ چاہے تو دیوار سے باتیں کریں
کل ہی لوگوں کی تعداد آٹھ بلین ہوئی
مگر ہر شخص کو یہی گلہ کہ اس جیسا کوئی نہیں
آدمی ڈرتا ہے
پہلے بولنے اور قدم رکھنے سے
اور اسی پہلے بول پر وہ نیا شخص موجود ہے
جو تمہارے گزشتہ شخص کا
تمہارے کندھے سے بوجھ اتارے گا
تنویر حسین
No comments:
Post a Comment