ہزار غم ہوں تو پھر انتخاب کیسے کروں
دریدہ دل کو میں نذرِ عذاب کیسے کروں
میں اس کو بھول چکا تھا کئی برس کے بعد
ملی ہے وصل کی ساعتِ حساب کیسے کروں
وہی ہے عشق کی منزل وہی وفا کا سفر
کھلی جو آنکھ ذرا ذکر خواب کیسے کروں
غمِ حیات کی اب کوئی انتہا ہی نہیں
میں اپنی ذات کو وقفِ سراب کیسے کروں
یہ شہرِ درد ہے اے دوستانِ دل زدگاں
وفا شمار کروں احتساب کیسے کروں
وہی ہے عظمت و جاہ و حشم وہی منصب
فقیہِ شہر وہی ہے، خطاب کیسے کروں
صبا وہ شخص ابھی تک ہے مجھ سے بیگانہ
میں اس کی ذات سے پھر انتساب کیسے کروں
نعیم صبا
No comments:
Post a Comment