اک ندی میں سیکڑوں دریا کی طغیانی ملی
ڈوبنے والے کو مر جانے کی آسانی ملی
حاشیہ بردار سے پوچھا سمندر نے میاں
آج تک اک موج بھی تم کو نہ دیوانی ملی
سر پھری پاگل ہوا کو روکنا دشوار تھا
ایک ہی دن کے لیے تھی اس کو سلطانی ملی
تشنہ لب تالاب نے بادل کو پھر دھوکا دیا
پھر وہی صحرا وہی صحرا کی ویرانی ملی
ہر سفر سے کشتیوں کا لوٹنا ممکن نہیں
کیا پتہ کب لہر کوئی دشمنِ جانی ملی
آگے پیچھے سب کو مقتل سے گزرنا ہے ظفر
کیوں سمجھتے ہیں کہ ہم کو ہی پریشانی ملی
ظفر امام
No comments:
Post a Comment