Saturday 10 December 2022

اک ندی میں سیکڑوں دریا کی طغیانی ملی

 اک ندی میں سیکڑوں دریا کی طغیانی ملی

ڈوبنے والے کو مر جانے کی آسانی ملی

حاشیہ بردار سے پوچھا سمندر نے میاں

آج تک اک موج بھی تم کو نہ دیوانی ملی

سر پھری پاگل ہوا کو روکنا دشوار تھا

ایک ہی دن کے لیے تھی اس کو سلطانی ملی

تشنہ لب تالاب نے بادل کو پھر دھوکا دیا

پھر وہی صحرا وہی صحرا کی ویرانی ملی

ہر سفر سے کشتیوں کا لوٹنا ممکن نہیں

کیا پتہ کب لہر کوئی دشمنِ جانی ملی

آگے پیچھے سب کو مقتل سے گزرنا ہے ظفر

کیوں سمجھتے ہیں کہ ہم کو ہی پریشانی ملی


ظفر امام

No comments:

Post a Comment